میرے پورے وجود میں سنسنی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے اور جسم کا ایک ایک بال کھڑا ہونے لگتا ہے۔ شاید اسی لیے کہ اس واقعے کا تعلق ایک ایسے انسان سے تھا جو زندہ ہونے کے باوجود عذابِ قبر کا ایک نشان اپنے بوسیدہ وجود پر لیے گھوم رہا تھا۔ اصل کرداروں کے نام تو مجھے یاد نہیں، لیکن کوشش کروں گا کہ اس واقعے کو اسی انداز میں بیان کروں جیسے والد گرامی مرحوم و مغفور نے سنایا تھا:
’’ملتان کی ایک مسجد میں سب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو امام صاحب نے نمازیوں کو دعا کے بعد مخاطب کیا:
حضرات! آج سرسہ سے ایک صاحب یہاں تشریف لائے ہیں، وہ کوئی واعظ نہیں ہیں لیکن اپنی زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ جہاں بھی جاتے ہیں، لوگوں کو سنا کر انھیں غفلت سے بیدار کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں، میں آپ سے گزارش کروں گا کہ تھوڑا سا وقت نکال کر ان کی بات سن لیجیے۔
امام صاحب کے لہجے میں کچھ ایسا اثر تھا کہ کوئی بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا اور سب لوگ ان صاحب کی طر ف متوجہ ہوگئے جو امام صاحب کی جگہ منبر پر آکھڑے ہوئے تھے۔ بظاہر اس شخص میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہ تھی، دیہاتی لباس میں ملبوس وہ ایک عام سا انسان تھا۔ اس کا عام سا حلیہ دیکھ کر چند اصحاب چہ میگوئیاں کرنے لگے لیکن جب اس نے بات شروع کی تو مجمع پر سکوت طاری ہو گیا۔ اُس کی آواز میں کوئی ایسی پراسرایت تھی کہ جب وہ بولتا تو ہوا بھی تھمی تھمی سی محسوس ہوتی، چند ہی ثانیے میں سب کو احساس ہو گیا کہ نہ تو وہ ایک عام انسان تھا اور نہ ہی وہ واقعہ معمولی تھا جو وہ سنانے جا رہا تھا، اس شخص کی آواز گویا کسی گہرے کنوئیں سے ابھرتی سنائی دے رہی تھی، وہ کہہ رہا تھا:
’’ساتھیو! میں جو واقعہ آپ کو سنانے جا رہا ہوں، وہ کوئی من گھڑت قصہ نہیں ہے، مجھ پر بیتنے والا ایک حرف بہ حرف سچا واقعہ ہے۔ دس سال ہوگئے میں زندہ لاش بن کر اس واقعے کو جہاں جہاں موقع ملتا ہے، دہراتا ہوں، شاید کہ کسی کے دل میں میری بات اتر جائے اور وہ دنیا کی دکھاوے والی زندگی پر اپنی وہ جائے پناہ قربان نہ کرے جہاں اسے تاقیامت ابدی نیند سونا ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ ایک پل کے لیے رکا اور پھر اصل واقعہ سنانے لگا:
میں ضلع حصار، سرسہ کے ایک دیہات کا رہائشی ہوں اور یہ واقعہ اسی علاقے ایک جنگل میں میرے ساتھ پیش آیا۔ میں گاؤں والوں کی بھیڑ بکریاں چراتا تھا، یہ ہمارا آبائی پیشہ ہے۔ ایک دن میں حسب معمول بھیڑ بکریاں جنگل میں لے کر گیا، ایک درخت کے نیچے چادر بچھا کر لیٹ گیا اور بھیڑ بکریوں کی نگرانی کرنے لگا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ فضا میں کسی ہاتھی کی چنگھاڑ گونجی اور بکریاں سہم کر ادھر ادھر بھاگنے لگیں۔ میں وہ غیر معمولی چنگھاڑ سن کر برقی سرعت سے اٹھ کھڑا ہوا، اس علاقے میں ہاتھی کا کیا کام، پھر آواز سے لگتا تھا کہ وہ کوئی جنگلی یا پھر پاگل ہاتھی ہے۔ بھیڑ بکریاں سہم کر ایک خاردار جھاڑی کے عقب میں جمع ہوتی چلی گئیں، گویا قدرتی طور پر یہ ان کا حفاظتی اقدام تھا۔ آس پاس درخت تو بےشمار تھے لیکن کوئی بھی اتنا مظبوط نہ تھا کہ ہاتھی کی ٹکر سہار سکتا۔ میری سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ جاؤں تو کہاں؟ میرا ذہن اسی شش و پنج کا شکار تھا کہ دفعتاً زمین یوں تھرا اٹھی جیسی زلزلہ سا آگیا ہو۔ میرے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے اور میں ایک انجانی سمت میں بھاگ کھڑا ہوا، کچھ ہی دور گیا تھا کہ پیچھے سے ہاتھی کے وزنی قدموں کی آواز کو اپنے تعاقب میں پایا۔ میں سمت بدل بدل کر بھاگتا رہا لیکن بھلا ایک پاگل ہاتھی کی رفتار کا مقابلہ کیوں کر کیا جا سکتا تھا، سیاہ عفریت موت بن کر کسی بھی لمحے میرے سر پر پنچ کر میرا کچومر نکال سکتا تھا۔ لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، اچانک وہ گنبد نما عمارت ویرانے میں یوں میرے سامنے آگئی جیسے زمین سے اگ آئی ہو، بظاہر وہ مندر یا کسی مزار نما عمارت کا گنبد تھا، داخلے کے لیے ایک ہی چھوٹی سی کھڑکی نما بے کواڑ جگہ تھی، ایک پل میں میرا رُخ اس جانب ہو چکا تھا، کھڑکی نما جگہ اتنی چھوٹی تھی کہ ہاتھی کوشش کے باوجود اس میں داخل نہیں ہو سکتا تھا، میں آندھی اور طوفان کی طرح اس اکلوتے کمرے میں جاگھسا، وسط میں پختہ قبر تھی اور اس کے عین اوپر چھت سے ایک آہنی زنجیر لٹک رہی تھی، اندر بمشکل اتنی ہی جگہ تھی کہ میں ایک طرف کو کھسک کر کھڑا ہو سکتا تھا، قبر پر کھڑا ہونا مجھے گوارا نہ تھا، ہاتھی بھی چند لمحوں کی تاخیر سے میرے سر پر پہنچ گیا۔ صد شکر کا مقام تھا کہ وہ گنبد نما عمارت مظبوط پتھر کی تھی ورنہ ہاتھی ایک ہی ٹکر میں اسے زمین بوس کر ڈالتا۔ جب کھڑکی سے اندر داخل نہ ہوسکا تو ہاتھی نے اپنی سونڈ اندر داخل کی، مجھے مارنے کی کوشش کرنے لگا، اب تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ پاگل ہاتھی میری جان لے کر ہی چھوڑے گا، ایک آدھ بار سونڈ کسی ظالم چابک کی طرح میرے وجود سے ٹکرائی اور میں اندر تک ہل کر رہ گیا، اگر ایک بار مزید وہ اسی طرح مجھے لگتی تو قریب تھا کہ میں غش کھا کر گر پڑتا، اگلے ہی لمحے ایک عجیب بات ہوئی اور مجھے اپنی موت کا یقین ہو گیا، قبر کے اندر سے ایسی آواز آئی جیسے کوئی تکلیف سے گلا پھاڑ کر چیخ رہا ہو، میں نے عذاب قبر کے کئی واقعات سن رکھے تھے لیکن اپنے کانوں سے ایسی چیخیں پہلی بار سن رہا تھا، اس سے پہلے کہ میرے اوسان جواب دے جاتے ، قبر کے سرہانے ایک شگاف نما مقام سے ایک غیر معمولی جسامت کا سیاہ بچھو نکلا اور دیوار پر سے ہو کر میری جانب رینگنے لگا۔ جوں ہی بچھو قبر سے نکلا چیخوں کا سلسلہ بھی موقوف ہو گیا۔ کوئی دوسرا انسان میری اس وقت کی کیفیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا، ایک طرف پاگل ہاتھی، دوسری طرف قبر کا بچھو اور نیچے عذاب قبر سے تڑپتا نامعلوم وجود، خداجانے میرے قدموں تلے کیا معاملہ چل رہا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، جب کچھ نہ سوجھا تو چھت سے لٹکتی زنجیر کو تھام کر فضا میں جھول گیا اور اپنا وجود اس حد تک سمیٹ لیا کہ سونڈ اور بچھو دونوں کی زد سے دور ہو جاؤں، اب میں قبر کے عین اوپر فضا میں معلق تھا۔
جیسے ہاتھی کی سونڈ چکر کاٹ کر دیوار سے ٹکرائی، سیاہ بچھو اس کی زد میں آگیا، معلوم نہیں بچھو کا کیا بنا لیکن اگلے ہی لمحے ہاتھی بےدم ہو کر زمین پر آگرا۔ تھوڑی دیر تک فضا میں خر خراہٹ سے گونجتی رہی اور پھر ہر سو موت کا سکوت چھا گیا۔ بچھو کا بھی نام و نشان نہ تھا، شاید وہ سونڈ لگتے ہی گر کر واپس قبر میں جاگھسا تھا، اور ہاتھی اس کے زہر کی تاب نہ لاکر جان سے ہاتھ دھو چکا تھا۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ ہاتھی مر چکا ہے اور اب نہیں اٹھے گا تو زنجیر چھوڑ کر نیچے اتر آیا۔ جوں ہی میں نے کھڑکی نما راستے سے باہر نکلنا چاہا تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ ہاتھی یوں آڑھا ترچا پڑا تھا کہ مجھے اسے پار کرنے کے لیے اس کے اوپر قدم جمانا تھا، تمام تر خوف کے باوجود میں اس مقام سے دور جانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے مردہ ہاتھی کے وجود پر سے دم جما کر گزرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ہاتھی کا دیو ہیکل وجود اس قدر ہیبت ناک تھا کہ اس کی موت کی یقین ہو جانے کے باوجود اس کے اوپر پاؤں رکھنے کی مجھے ہمت نہیں ہو رہی تھی، چاروناچار میں نے ہمت مجتمع کر کے اس پر پاؤں رکھا اور آگے جانے کے لیے دباؤ ڈالا ہی تھا کہ میرا پاؤں اس کے وجود میں یوں اتر گیا جیسے گوشت پوست کے بجائے ہاتھی کا وجود موم سے بنا ہو، اگلے ہی لمحے میں اپنا پاؤں گھسیٹ کر ایک ہی جست میں اس طرح ہاتھی کو پار کر گیا کہ میرا دوسرا قدم اس کے وجود سے مس بھی نہ ہوا۔ لیکن اس ایک لمحے میں مجھ پر جو قیامت بیتی وہ قیامت تک کے لیے مجھے نمونہ عبرت بنا گئی۔ میں آج بھی اپنی ٹانگ پر نظر ڈالتا ہوں تو وہ سارا منظر میری آنکھوں سے سامنے یوں تازہ ہو جاتا ہے جیسے کل کی ہی بات ہو۔
اتنا کہہ کر اس نے اپنی دائیں ٹانگ سے دھوتی کا پلو اوپر کو سرکایا اور دیکھنے والوں نے بےاختیار اپنی آنکھیں بند کر لیں، گھٹنے سے ٹخنے تک گوشت کا نام و نشان تک نہ تھا، سیاہی مائل ہڈی کے نام پر اس کی بوسیدہ ٹانگ سب کے سامنے تھی، پاؤں کا باقی حصہ شاید جوتے نے ڈھانپ رکھا تھا، گھٹنے سے نیچھے پیپ کا ابھار بھی صاف دیکھا جا سکتا تھا۔
قبر کے اس بچھو میں اتنا سریع الاثر زہر تھا کہ ہاتھی کو اسے چھو جانا ہی نہ صرف ہاتھی کا وجود پانی پانی کر گیا بلکہ اس چرواہے کی ٹانگ کو بھی دوسروں کے لیے درس عبرت بنا گیا۔ خدا جانے صاحب قبر کو قیامت تک ابھی کتنا عذاب جھیلنا تھا۔
Comments
Post a Comment